قائداعظم محمدعلی جناح

بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے بانی تھے، انھوں نے اپنی زندگی کے 42 سال اس کے لئے جدوجہد کی۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب تھے۔دراصل انہوں نے وہ کر دکھا یا جو کہ عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ ا یسے لوگ اپنے کردار کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی قوم کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں . وہ بیسویں صدی کے پہلے نصف کے بہت بڑے قانوں ساز تھے جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ آپ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ، ایک عظیم آئین پسند،  ممتاز پارلیمنٹیرین ، ا یک اعلی درجے کے سیاستدان ،  متحرک مسلمان رہنما اور جدید زمانے کے سب سے بڑے قوم ساز تھے ۔ تاہم جو بات انہیں ممتاز بناتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے قائد ین نے پہلے سے روایتی طور پر موجود اقوام کی قیادت سنبھالی اور ان کے مقاصد کو آگے بڑھایا اور انہیں آزاد ی کی طرف لے کر گئے ۔ جب کہ قائداعظم نے ایک پسی ہوئی اور متفرق اقلیت کو اکھٹا کیا اور بیدار کیا اور ایک دہائی کے اندر قوم کو تہزیب وثقافت کے مطابق وطن فراہم کیا ۔ برصغیر پاک و ہند کی آزادی سے قبل آپ نے تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کی . وہ واحد ممتاز مسلمان سیاستدان تھے اس لئے انہوں نے قوم کی رہنمائی کی، ہندوستان کے مسلمانوں کے خوابوں کو زبان دی، ان کو ہم آہنگ کیا، واضح سمت عطا کی اور ٹھوس مطالبات کی شکل میں پیش کیا ۔ اور سب سے بڑھ کر انہوں نے پوری کوشش کی کہ وہ جو بھی کریں ہندوستان کی آبادی کے غالب طبقہ ، برطانوی حکمرانوں اور ہندوؤں کی رضامندی سے کریں۔ تیس سال سے زیادہ عرصے تک انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور ایک معزز طرز زندگی کے لئے بھرپور کوشش کی ۔ درحقیقت ان کی سوانح حیات برصغیر کے مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ اور بطور قوم شاندار ظہور کی کہانی ہے۔

ابتدائی زندگی

آپ 25 دسمبر 1876 کو کراچی کے ا یک مشہور تجارتی خاندان میں پیدا ہوئے . آپ نےابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃاالسالم اور کرسچن مشن سکول میں حاصل کی۔ جناح نے 1893 میں لنکن ان میں شمولیت اختیار کی اور تین سال بعد پیشہ وکالت اختیار کیا ۔ آپ یہ کام کرنے والے سب سے کم عمر ہندوستانی تھے ۔ اپنی اہلیت اور اولعزمی کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی اور کچھ ہی سالوں میں بمبئی کے سب سے کامیاب وکیل بن گئے جو کہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ ایک بار جب آپ نے وکالت کے پیشے میں مضبوطی سے قدم جما لئیےتو آپ 1905 میں انڈ ین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے باضابطہ طور پر سیاست میں داخل ہوئے۔ اس سال وہ گوپال کرشنا گوکھلے (1866-1915 )کے ساتھ برطانوی انتخابات کے دوران ہندوستانیوں کی آزاد حکومت کی استدعا کے لئے کانگریس کے ایک وفد کے ممبر کی حیثیت سے انگلینڈ گئے تھے۔ جناح نے ایک سال ہندوستانی نیشنل کانگریس کے صدر ، دادا بھائی نوروجی (1825-1796 )کے سکریٹری کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں ، جوکہ ایک ابھرتے ہوئے سیاستدان کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ یہاں کلکتہ کانگریس اجلاس (دسمبر 1906 )میں انہوں نے ہندوستان پر ہندوستانیوں کی اپنی حکومت سے متعلق قرارداد کی حمایت میں اپنی پہلی سیاسی تقریر بھی کی ۔

پولیٹیکل کیریئر

تین سال بعد ، جنوری 1910 میں جناح نو تشکیل شدہ امپیریل قانون ساز کونسل کے لئے
منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے پارلیمانی کیریئر میں اپنی زندگی کی چار دہائیاں وقف کیں وہ
ہندوستان کی آزاد ی اور ہندوستانیوں کے حقوق کے لئے سب سے طاقتور آواز تھے ۔ جناح
کونسل کے توسط سے پرائیویٹ ممبر کے بل کو چلانے والےپہلے ہندوستانی بھی تھے ۔ جلد
ہی مقننہ کے اندر ایک گروپ کے قائد بن گئے ۔ مسٹر مونٹیگو (1879-1924 )نے ہندوستان
کے سکریٹری برائے ریاست کی حیثیت سے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جناح کے بارے
میں کہا ” وہ ایک خوش اخلاق ، جاذب نظر اور تمام حربوں سے لیس ہیں اور انکے لئے یہ
بات غضب ناک ہے کہ ان جیسے ہوشیار آدمی کو اپنے ہی ملک کے معاملات چلانے کا
کوئی موقع نہ دیا جائے “۔
1906 میں سیاست میں آنے کے بعد تقری با تین دہائیوں تک جناح نے جوش و جذبے اور
یقین کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کیا ۔ گاندھی سے پہلے ہندووں کے سب سے بڑے
رہنما گوکھلے نے ایک بار ان کے بارے میں کہا تھا “ان کے پاس اصل چیزیہ ہے کہ وہ
تمام فرقہ وارانہ تعصب سے آزاد ہیں اور یہ ہی بات انہیں ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر بناتی
ہے ۔ اور حقیقت یہ کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے معمار بن گئے اور 1916 میں کانگریس اور
مسلم لیگ کے درمیان جو معاہدہ ہوا جسے عرف عام میں میثاق لکھنو کہتے ہیں کا سہرہ جناح
کے سر جاتا ہے۔ یہ معاہدہ کانگریس اور مسلم لیگ جو کہ ہندوستان کی دو بڑی قومیتوں کی
نمائندگی کرنے والی جماعتیں تھیں کہ درمیان واحد معاہدہ تھا۔
معاہدہ کانگریس – لیگ کی اسکیم مونٹیگو چیمس فورڈ اصلاحات کی اساس بنی جسے
دوسرے لفظوں میں 1919 کا قانون بھی کہا جاتا ہے۔ بادی النظر میں معاہدہ لکھنو ہندوستانی
سیاست کے ارتقا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے مسلمانوں کو علیحدہ حق
رائے دہی ، مقننہ میں علیحدہ نشستیں اور مرکز اور صوبوں میں نمائندگی کا حق دیا ۔ اس
طرح اصلاحات کے اگلے مرحلے میں ان کی برقراری کو یقینی بنایا گیا۔ دوسرے لفظوں میں
آل انڈیا مسلم لیگ کی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کی حیثیت تسلیم کر لی گئی ۔ جس کے نتیجہ
میں ہندوستانی سیاست میں مسلم انفرادیت کے رجحان کو تقویت ملی۔ اور ان سب کا سہرا
جناح کو جاتا ہے۔ چنانچہ ، 1917 تک ، جناح ہندوستان کے سب سے نمایاں سیاسی رہنماؤں
میں سے ایک کے طور پر ہندو اور مسلمان دونوں میں مشہور تھے ۔ وہ نہ صرف کانگریس
اور امپیریل قانون ساز کونسل میں نما یاں تھے ، بلکہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ اور ہوم رول لیگ
کی بمبئی برانچ کے صدر بھی تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کانگریس لیگ کے درمیان
لکھنو میں مفاہمت میں ان کے کلیدی کردار کی وجہ سے ، انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر مانا
گیا۔

آئینی جدوجہد

بعد کے سالوں میں وہ سیاست میں تشدد کے امتزاج سے بہت مایوس ہوئے۔ کیونکہ جناح منظم
پیشرفت، اعتدال پسندی ، تدریجیت اور آئین پرستی کے حامی تھے ، اس لئے انھوں نے
محسوس کیا کہ سیاسی تشدد قومی آزادی کی راہ نہیں بلکہ تباہی اور برباد ی کی تاریک گلی
ہے۔
نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی، سیاسی انتہا پسند ی کی وجہ تھی۔
جناح نے محسوس کیا یہاں تک کہ رابندر ناتھ ٹیگور (1861-1941 )نے بھی محسوس کیا تھا
کہ گآندھی کا عدم تعاون کا نظریہ منفی ہے اور مایوسی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ اس سے
ناراضگی پیدا ہوسکتی تھی ، لیکن کچھ بھی تعمیری نہیں ہو گا لہذا انہوں نے گاندھی کی
طرف سے بیسویں دہائی کے اوائل میں تحریک خالفت کے استحصال اور پنجاب میں ناجائز
ہتھکنڈوں کے استتعمال کی مخالفت کی ۔ گاندھی کے پروگرام کو اپنائے جانے کے موقع پر
جناح نے ناگپور کانگریس اجلاس (1920 )میں متنبہ کیا . آپ ہندوستانی نیشنل کانگریس کو
ایک سال میں ہندوستانیوں کی اپنی حکومت کے حصول کا نا ممکن ہدف دے رہے ہیں ۔ جو
آپ حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ آزادی کے لئے کوئی سہل راستہ
نہیں ہے اور کوئی ماورائے آئین طریقہ ہندوستان کو آزادی کی دہلیز کے قریب لا نے کی
بجائے سیاسی تشدد ، لاقانونیت اور انتشار کا باعث بنے گا۔
آئندہ کے واقعات نہ صرف جناح کے اندیشوں کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ ا نھیں درست ثابت
کرتے ہیں۔ اگرچہ جناح نے اس کے بعد کانگریس کو خیرباد کہہ دیا ، لیکن انہوں نے
ہندومسلم مفاہمت کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں جسے وہ بجا طور پرسوراج کے
لئے اہم ترین شرط سمجھتے تھے ۔ تاہم ، دونوں قومیتوں کے مابین شدید عدم اعتماد جو کہ
ملک گیر فرقہ ورانہ فسادات سے ثابت تھا کی اصل وجہ ہندووں کی مسلمانوں کے جائز
مطالبات کو پورا کرنے میں ناکامی تھی۔ جس نے قائد کی ساری کوششوں کو ناکام بنا د یا ۔
ایسی ہی ایک کوشش جناح نے مارچ ، 1927 میں دہلی مسلم تجاویز کی صورت میں کی تھی ۔
آئینی منصوبے پر ہندو مسلم اختلافات کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے دہلی تجاویز میں
مسلمانوں کے علیحدہ حق رائے دہی کو بھی چھوڑ دیا ، جو 1906 کے بعد سے مسلمانوں کا
سب سے بنیاد ی مطالبہ تھا ، اور جسے میثاق لکھنو میں کانگریس نے تسلیم کیا تھا ، لیکن وہ
پھردونوں جماعتوں کے مابین تنازعہ کا سبب بن گیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے
آئین کے لئے کانگریس کے زیر اہتمام تجاویز کی نمائندگی کرنے والی نہرو رپورٹ )1928 )
نے دہلی مسلم تجاویز میں شامل بنیادی مسلم مطالبات کی بھی نفی کر دی۔
سعی الحاصل کے طور پر جناح نے 1928 میں کانگریس کے قومی کنونشن میں استدلال کیا
کہ “ہم چاہتے ہیں کہ ہندو اور مسلم ایک ساتھ چلیں جب تک کہ ہمارا مقصد حاصل نہ ہوجائے
ان دونوں برادریوں کو اپنے اختالفات بھلانے ہونگے اور یہ محسوس کرنا ہو گا کہ ان کے
مفادات مشترک ہیں۔ “۔ کنونشن کی طرف سے مسلم مطالبات کو قبول کرنے سے انکار نے
ہندو مسلم اتحاد کو تباہ کن دھچکا پہنچایا اور جناح کی محنت کو ضائع کر دیا یہ موقع
مسلمانوں کے لئے آخری تنکا ثابت ہوا اور جناح کے لئے “راستے جدا کرنے ” کا باعث بنا۔
اس بات کا اعتراف انہوں نے اس وقت اپنے ایک پارسی دوست سے کیا تھا۔ برصغیر کی
سیاست سے مایوس ہونے کے بعد تیس کی دہائی کے اوائل میں ہجرت کرکے لندن چلے
گئے تاہم ، وہ اپنے ہم مذہب ساتھیوں کی التجا پر1934 میں ہندوستان واپس آئے اور ان کی
قیادت سنبھالی ۔ لیکن اس وقت کے مسلمان مرد و خواتین سیاسی طور پر غیر منظم ہونے
کی وجہ سے مایوسی اور بے بسی کا شکار تھے ۔

مسلم لیگ کی تنظیم نو

جناح کے سامنے جو ہدف تھا وہ اتنا آسان نہ تھا۔ مسلم لیگ غیر فعال تھی اور اس کی
صوبائی تنظیمیں بھی زیادہ تر غیر موثر اور صرف رسمی طور پر مرکزی تنظیم کے ماتحت
تھیں۔ مرکزی ادارہ جو جناح نے منظم کیا تھا اس کی بمبئی کے اجلاس (1936 )تک اس کی
کوئی مربوط پالیسی نہیں تھی ۔ صوبائی سیاست نے بھی مایوس کن منظر نامہ پیش کیا ۔
پنجاب ، بنگال ، سندھ ، نارتھ ویسٹ فرنٹیئر ، آسام ، بہار اور متحدہ صوبوں میں ، مختلف
مسلم رہنماؤں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی اپنی صوبائی جماعتیں تشکیل دی
تھیں ۔ جناح کے لئے اس وقت ڈھارس کا باعث شاعر و مفکر علامہ اقبال (1877-1938 )
کی شخصیت تھی جنہوں نے پس منظر میں رہ کر ہندوستانی سیاست میں اپنا راستہ بنانے میں
انکو مدد فراہم کی
اس مایوس کن صورتحال کے باوجود جناح نے ایک پلیٹ فارم پر مسلمانوں کو منظم کرنے
کے لئے خود کو وقف کردیا۔ انہوں نے ملک گیر دوروں کا آغاز کیا اور صوبائی مسلم
رہنماؤں سے التجا کی کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کریں اور لیگ میں شامل ہو جائیں ۔ انہوں
نے مسلم عوام کو اپنے آپ کو منظم کرنے اور لیگ میں شامل ہونے کی تلقین کی۔ انہوں نے
گورنمنٹ آف انڈیا ا یکٹ 1935 کے حوالے سے مسلمانوں کے سیاسی جذبات کو ہم آہنگ کیا
اور واضح سمت فراہم کی ۔ انہوں نے اس بات کی حمایت کی کہ فیڈرل اسکیم کو ختم کرنا
چاہئے کیونکہ یہ ہندوستان کی خود مختار حکومت کے مقصد کے منافی ہے جبکہ صوبائی
اسکیم ، جس نے پہلی بار صوبائی خودمختاری کے حق کو قبول کیا تھا ، اس کے کچھ قابل
اعتراض خصوصیات کے باوجود اسکی حمایت کی۔ انہوں نے 1937 کے اوائل میں ہونے
والے انتخابات کے لئے لیگ کا ایک قابل عمل منشور بھی مرتب کیا ۔ ا یسا لگتا تھا کہ وہ
ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک طاقت بنانے کے لئے ہوا کے مخالف جدوجہد کر رہے تھے۔
تمام تر نامساعد حاالت کے باوجود مسلم لیگ نے 1937 کے اتخابات میں کل 485 مسلم
نشستوں میں سے 108( تقریبا 23 فیصد) نشستیں حاصل کیں۔ اگرچہ یہ بہت متاثر کن
کارکردگی نہیں تھی ، لیکن لیگ کی اس جزوی کامیابی نے اس حقیقت کے پیش نظر مزید
اہمیت اختیار کر لی کہ لیگ نے سب سے زیادہ مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور یہ کہ
ملک میں مسلمانوں کی وہ واحد ملک گیر جماعت تھی ۔ چنانچہ انتخابات برصغیر کے نقشے
پر مسلم ہندوستان کو بنانے کے لئے پہلے سنگ میل ثابت ہوئے ۔ 1937 میں اقتدار میں آنے
والی کانگریس نے جدید ہندوستان کی تاریخ پر بہت گہرا اثر ڈالا ۔ اسی سال میں حکومت ہند
ایکٹ 1935 کا صوبائی حصہ نافذ ہوا جس نے صوبوں میں پہلی بار ہندوستانیوں کو خود
مختاری دی گئی۔
کانگریس ، ہندوستانی سیاست میں اکثریتی پارٹی بننے کے بعد سات صوبوں میں اقتدار میں
آئی ، جس نے لیگ کے تعاون کی پیش کش کو مسترد کر دیا ، آخرکار اس اتحاد کی سوچ سے
منہ پھیر لیا اور مسلمانوں کو ایک سیاسی اکائی کے طور پر اقتدار سے خارج کردیا ۔ جناح
کی متحرک قیادت کے تحت مسلم لیگ کی تنظیم نو ہوئی لیگ کو ایک عوامی پارٹی بنایا گیا
پہلی بار ہندوستانی مسلمانوں کی موءثر ترجمان بن کر سامنے آئی۔ اس اہم سال میں
ہندوستانی سیاست میں کچھ مخصوص رجحانات کا آغاز ہوا ، جس کے بعد آنے والے برسوں
میں برصغیر کی تقسیم ناگزیر ہوگئی ۔ کانگریس نے جولائی ، 1937 میں گیارہ میں سے سات
صوبوں میں اقتدار سنبھالا ۔ کانگریس کے اقتدار اور پالیسی نے مسلمانوں کو اس بات پر قائل
کیا کہ ، کانگریس کی اسکیموں میں وہ صرف ہندوؤں کے رحم و کرم پر اور اقلیت کی
حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے ایک پالیسی بنائی
تھی اور ا یک ا یسا پروگرام شروع کیا تھا جس سے مسلمانوں کو ان کا مذہب ، زبان اور ثقافت
غیر محفوظ محسوس ہونے لگے ۔ جناح نے اس جارحانہ کانگریس پالیسی کے ردعمل کے
طور پر مسلمانوں کو ایک نئے شعور کے لئے بیدار کرنے ان کو آل انڈیا پلیٹ فارم پر منظم
کرنے اور ان کو محاسبہ کرنے کی طاقت بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ان کی خواہشات
اور آرزووں کو ہم آہنگی ، سمت اور لب و لہجہ دیا ۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے لوگوں میں
خود اعتمادی پیدا کی ۔

نئی بیداری

جناح کی بھرپور کوششوں سے مسلمان بیدار ہوئے . (پروفیسر بیکر )ان کو “غیر متفکرانہ
خاموشی” کہتے ہیں حالانکہ ان میں صدیوں سے “قومیت کا روحانی جوہر” موجود تھا۔
کانگریس کی پے در پے ضربوں نے مسلمانوں کو امبی ڈکر (آزاد ہندوستان کے آئین کے اصل
مصنف) کے بقول ”اپنی بقاء کے لئے اپنے معاشرتی شعورکو تالش کیا تاکہ ان کی
خواہشات کی مربوط اور موئثر ترجمانی ہو سکے۔ مسلمانوں کو اس بات پر بڑی ڈھارس
ملی کہ ان کے قومیت کے جذبات قوم پرستی کی صورت میں بھڑک چکے ہیں۔ “مزید یہ کہ
نہ صرف ان میں بحیثیت قوم رہنے کی خواہش بیدار ہو چکی تھی بلکہ ان کے پاس سرزمین
موجود تھی جس پر وہ اپنی نئی دریافت شدہ قوم کے لئے ریاست اور ثقافتی گھر قائم کر
سکتے تھے۔ قومیت کی ان دو شرائط نے مسلمانوں کو اپنی مختلف قوم پرستی (جو کہ
ہندوستان یا ہندو قوم پرستی سے الگ ) کے لیے فکری جواز فراہم کیا۔ لہذا جب طویل
عرصے کے بعد جب مسلمانوں نے اپنی خواہشات کو زبان دی تو یہ عوامل ایک علیحدہ مسلم
قومیت اور الگ مسلم ریاست کے حق میں نکلے۔

پاکستان کامطالبہ

قائداعظم نے ہمیشہ واضح الفاظ میں دعوی کیا کہ “ہم ا یک قوم ہیں”۔ ہم اپنی مخصوص ثقافت
اور تہذیب ، زبان و ادب ، آرٹ اور فن تعمیر ، ناموراقدار کے احساس کی حامل ا یک قوم ہیں۔
قوانین اور اخلاقی ضابطہ ، تاریخ اور کیلنڈر ، رسم و رواج اور روایت ، قابلیت اور عزائم؛
مختصر یہ کہ زندگی اور زندگی کے بارے میں ہمارا اپنا مخصوص نظریہ ہے۔ بین االقوامی
قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ، ہم ایک قوم ہیں۔ 1940 میں پاکستان کے لئے مسلم مطالبہ
کی تشکیل نے ہندوستانی سیاست کی نوعیت اور اس کے طریق کار پر زبردست اثر ڈالا۔ ایک
طرف اس نے ہندوستان سے برطانوی سامراج کے نکلنے کے بعد ہندو ریاست کے خواب کو
ہمیشہ کے لئے بکھیردیا ۔ دوسری طرف اس نے اسلامی نشا ط ثانیہ اور تخلیقی صلاحیتوں
کے دور کا آغاز کیا جس میں ہندوستانی مسلمان سر گرم شرکاء ہونے تھے۔ اس حوالے سے
ہندوؤں کا رد عمل تیز ، تلخ اور بدنیتی پر مبنی تھا۔
انگریزوں کے مسلمان مطالبے کے طور پر دشمنی اس یقین سے کھڑی ہوئی تھی کہ ہندوستان
کا اتحاد ان کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ہندو اور انگریز دونوں نے حیرت
انگیز طور پر زبردست رد عمل کی توقع نہیں کی تھی جس کا مطالبہ مسلم عوام کی طرف
سے کیا گیا تھا ۔ سب سے بڑھ کر ، وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ دس کروڑ لوگ اچانک
اپنی الگ قومیت اور اپنی منزل کے بارے میں باشعور ہوگئے تھے ۔ مسلم سیاست کا رخ
پاکستان کی طرف گامزن کرنے ، 1947 میں قیام پاکستان میں اس کی تکمیل کی طرف
رہنمائی کرنے میں کسی نے بھی قائد اعظم محمد علی جناح سے زیادہ فیصلہ کن کردار ادا
نہیں کیا ۔ یہ سب ان کی موئثر وکالت کا نتیجہ ہے اور ا ن نازک مذاکرات میں ، خاص طور پر جنگ کے بعد کے دور میں ، ان کی زبردست حکمت عملی نے پاکستان کے مطالبے کی
تکمیل کو ناگزیر بنا دیا تھا۔

کرپس اسکیم

پاکستان کے مطالبے پر برطانوی ردعمل اپریل 1942 میں کرپس پیش کش کی صورت میں
سامنے آیا جس نے علاقائی  بنیادوں پر صوبوں کے حق خوداراد یت کے اصول کو قبول کیا ۔
راجہ جی فارمولہ ، جو ممتاز کانگریسی رہنما راجاگوپاالچریہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ،
ستمبر 1944 میں جناح گاندھی مذاکرات کی بنیاد بنا ۔ اس نے پاکستان کے لئے کانگریس کی
متبادل پیش کش کی نمائندگی کی۔ کرپس کی پیش کش کو اس لئے مسترد کردیا گیا کیونکہ
اس نے پوری طرح سے مسلمان کے مطالبے کو قبول نہیں کیا تھا ، جبکہ راجاجی فارمولا کو
ناقابل قبول سمجھا گیا کیونکہ اس نے مسخ شدہ پاکستان کی پیش کش کی تھی اور اس میں
مطالبات اور شرائط کی بھرمار تھی جس کی وجہ سے اس کی تشکیل کسی بھی شکل میں
ممکن نہیں ہوئی ۔ تاہم ، کابینہ مشن کے انتہائی نازک اور کٹھن مذاکرات انتخابات کے بعد
47-1946 کے دوران ہوئے ، جن سے یہ ظاہر ہوا کہ ہندوستان دونوں جماعتوں یعنی
کانگریس اور لیگ کے مابین کسی حد تک یکساں طور پر تقسیم تھا اور ہندوستانی سیاست
میں مرکزی مسئلہ پاکستان تھا۔
یہ مذاکرات مارچ 1946 میں ، تین رکنی برطانوی کابی نہ مشن کی آمد کے ساتھ ہی شروع
ہوئے تھے۔ کابینہ مشن کو جس اہم کام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ یہ تھا کہ مختلف
سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد آئین سازی کی مشینری اور ا یک عبوری حکومت کا
قیام عمل میں لا یا جائے ۔ لیکن کیونکہ مشن  اور وائسرائے کی طویل کوششوں کے باوجود
کانگریس اور لیگ کے درمیان خلیج کو کم نہیں کیا جاسکا اس لئے مشن کو مئی 1946 میں
اپنی تجاویز خود بنانی پڑیں۔ یہ کابی نہ مشن پالن کے نام سے جانی جاتی ہے ان تجاویز نے
ایک محدود مرکز کا منصوبہ دیا جو صرف خارجہ امور ، دفاع اور مواصلات کا ذمہ دار ہو
گا۔ اور صوبوں کے تین خود مختار گروہ تجویز کئے ان میں سے دو گروہوں کو برصغیر
کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں مسلم اکثریت حاصل ہونی تھی ، جبکہ تیسرا گروہ جو
مرکزی سرزمین ہند پر مشتمل تھا اس کو ہندو اکثریت حاصل ہونی تھی جناح نے ا یک محدود
مرکز اور صوبوں کی گروہ بندی سے متعلق شقوں کو “پاکستان کی بنیاد” سے تعبیر کیا ، اور مسلم لیگ کونسل کو جون 1946 میں اس منصوبے کو قبول کرنے پر آمادہ کیا ۔ ان کا یہ اقدام کانگریس کی توقعات کے خلاف اور سراسر مایوس کن تھا۔
فسوسناک بات یہ ہے کہ اس منصوبے کی قبولیت کو لیگ کی کمزوری سے تعبیر کیا گیا اور
کانگریس نے انحراف کا طریقہ اختیار کیا اور رکاوٹیں ڈالیں تا کہ لیگ کو مجبور کیا جائے
کہ وہ اس منصوبے کو کانگریس کی تشریح کے مطابق تسلیم کرے ۔ اس صورت حال میں
جناح اور لیگ کے پاس اس کے سوا کوئی چآرہ نہ تھا کہ سابقہ منصوبے کو رد کریں اور
اپنے اصل موقف کا اعادہ اور اس کی توثیق کریں اور پاکستان کو حاصل کرنے کے لئے
براہ راست اقدام کریں (اگر ضرورت ہو تو) ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جناح کا ان حالات میں
، جب سب کچھ کھویا ہوا دکھائی دے رہا ہو، اپنی تدبیر کے ذریعے حالات کا رخ پلٹ دینا
کسی معجزے سے کم نہیں۔ ۔

تقسیم کامنصوبہ

1946 کے اختتام تک فرقہ وارانہ فسادات کے شعلوں نے پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا تھا۔ ا یسا لگتا تھا کہ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ پرامن
طور پر اقتدار کی منتقلی مشکل دکھائی دے رہی تھی۔ صورتحال کی سنگینی کا ادراک
کرتے ہوئے حکومت برطانیہ نے ہندوستان میں نیا وائسرائے الرڈ ماؤنٹ بیٹن بھیج دیا ۔
مختلف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ان کی طویل مذاکرات کے نتیجے میں 3 جون )1947 )کا
منصوبہ سامنے آیا جس کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ،
اور 15 اگست ، 1947 کو دو جانشین ریاستوں کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ کیا ۔ اس منصوبے
کو تین ہندوستانی جماعتوں نے باضابطہ طور پر قبول کرلیا جن میں کانگریس ، مسلم لیگ اور
اکالی دل (سکھوں کی جماعت )شامل ہیں۔

آزاد قوم کا قائد

ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں ، قائداعظم محمد علی جناح کو مسلم لیگ نے گورنر
جنرل پاکستان نامزد کیا جبکہ کانگریس نے ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل نامزد
کیا ۔ واقعتا یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک مجسم انتشار کی صورتحال میں پیدا ہوا ۔ دنیا کی
چند ہی قومیں ایسی ہونگی جن کا آغاز کم وسائل اور مشکل ترین حالات میں ہوا ہو گا۔ نئے
ملک کو مرکزی حکومت ، دارالحکومت ، انتظامی مرکز ، یا منظم دفاعی قوت کی صورت
میں کچھ نہیں ملا تھا۔ پنجاب میں طوفان نے رابطوں میں خلل ڈال دیا ۔ ہندو اور سکھ جو
کاروباری اور انتظامی مہارتیں رکھتے تھے بڑی تعداد میں ہندوستان ہجرت کر گئے جس
کی وجہ سے معیشت تقریبا بکھر گئی۔
خزانہ خالی تھا ، بھارت نے پاکستان کو اس کے نقد بیلنس کا بڑا حصہ د ینے سے انکار
کردیا ۔ طرہ یہ کہ نوزائیدہ ریاست سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ آٹھ لاکھ مہاجرین کی دیکھ بھال کرے جو شمالی ہندوستان کے میدانی علاقوں کی عدم تحفظ اور بربریتوں سے تپتے ہوئے
موسم گرما میں فرار ہوئے تھے ایک طرف تو پاکستان کی انتظامی اور معاشی کمزوری کا
عالم تھا تودوسری طرف ہندوستان نے نومبر 1947میں جوناگڑھ (جس نے اصل میں پاکستان
کو قبول کیا تھا) کا فوجی کاروائی کے ذریعے الحاق کر لیا اور اکتوبر 1947 سے دسمبر
1948 تک کشمیر جنگ نے پاکستان کی دفاعی کمزوری کو بھی بے نقاب کر دیا۔ ان
حاالت میں پاکستان کا پنپنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا جو صرف ایک شخص محمد علی
جناح کی وجہ سے ہوا ۔ قوم کو تاریخ کے اس نازک موڑ پر ایک کرشمائی رہنما کی اشد
ضرورت تھی اور قائداعظم نے اپنا کردار بدرجہ اتم نبھایا کیونکہ وہ محض گورنر جنرل
نہیں تھے: وہ قائداعظم تھے جو ریاست پاکستان کو وجود میں لائے
معامالت کی نگرانی میں ان کی موجودگی نے نوزائیدہ قوم کو ابتدائی خوفناک بحرانوں پر
قابو پانے کے قابل بنایا ۔ انہوں نے آزادی کے بعد پیدا ہونے والے حب الوطنی کے گہرے
جذبات کو بلند کیا ، لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کیا ، ان کے حوصلے بلند کرئے اور اپنے
ساتھ لوگوں کی غیر متزلزل وفاداریوں کو ریاست کی تعمیر میں استعمال کیا۔ اگرچہ جناح
بہت تھک چکے تھے اور انکی صحت بھی خراب تھی ، انہوں نے پہلے سال میں قوم کی
تعمیر کے بوجھ کا سب سے بھاری حصہ خود اٹھایا ۔ انہوں نے نئی ریا ست کی پالیسیاں مرتب
کیں ، قوم کو درپیش فوری مسائل کی طرف توجہ دلائی اور دستور ساز اسمبلی کے ممبران ،
سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو بتایا کہ قوم کو ان سے کیا توقعات ہیں۔ انہوں نے زور
دیا کہ امن و امان کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے باوجود اس اشتعال انگیزی کے کہ
شمالی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر فسادات ہو رہے تھے۔ وہ کچھ وقت کے لئے کراچی
سے الہور منتقل ہوئے اور پنجاب میں مہاجرین کے فوری مسئلے کی نگرانی کی۔ شد ید غم و
غصہ کے وقت انہوں نے اپنے آپ کو پر سکون اور مستحکم رکھا۔ انہوں نے الہور میں
اپنے پرجوش سامعین کو مشورہ دیا کہ وہ مہاجروں کی مدد کرتے ہوئے انتقامی کارروائیوں
سے بچیں، تحمل سے کام لیں اور اقلیتوں کی حفاظت پر توجہ دیں۔ انہوں نے اقلیتوں کو
منصفانہ سلوک کی یقین دہانی کرائی اور ان کو امید اور راحت د ی۔ انہوں نے مختلف صوبوں
کا دورہ کیا ، ان کے مخصوص مسائل کا جائزہ لیا اور ان میں مخصوص شناخت کا احساس
پیدا کیا۔ انہوں نے نارتھ ویسٹ فرنٹیئر میں برطانوی پالیسی  کو پلٹ د یا اور وزیرستان کے
قبائلی علاقے سے فوجوں کے انخلا کا حکم دے د یا ، جس سے پٹھان خود کو پاکستان کی
ریاست کا لازمی جز محسوس کرنے لگے ۔ انہوں نے خارجہ امور اور سرحدی علاقوں کی
وزارت تشکیل دی اور بلوچستان میں ا یک نئے دور کا آغاز کیا ۔ انہوں نے کراچی کی
حیثیت کے متنازعہ سوال کو حل کیا ، ریاستوں خصوصا قالت سے الحاق حاصل کرلیا جو کہ
بہت بڑا مسئلہ نظر آتا تھا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے الرڈ ماؤنٹ بیٹن سے مذاکرات
کرتے رہے۔

قائد کا آخری پیغام

اپنے مشن کی تکمیل پر اطمینان کے ساتھ جناح نے 14 اگست 1948 کو اپنے آخری پیغام میں
قوم سے کہا: “آپ کی ریاست کی بنیادیں رکھی جا چکی ہیں اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اسکی جلد
از جلد تعمیر کریں جتنی جلد ی آپ کر سکتے ہیں ۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد
انہوں نے سارہ بوجھ اپنے اوپرلے لیا ۔ جناح نے اپنی آخری سانس تک کام کیا ۔ رچرڈ سیمنز
نے کہا تھا “پاکستان کی بقا کے لئے سب سے بڑا کردار جناح نے ادا کیا تھا” ۔ ان کا انتقال
11 ستمبر 1948 کو ہوا۔
جناح نے ساری زندگی اپنے عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑی۔ مطالبہ پاکستان کی کسی
حد تک غیر روا یتی اور غلط تشریح کی وجہ سے انہیں پرتشدد مخالفت اور دشمنی کا سامنا
کرنا پڑا ۔ لیکن جناح کے بارے میں سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہردور میں ان کو
زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا ایسے لوگوں کی طرف سے بھی جن کا جناح سے نظریاتی
اختلاف تھا۔